Waseem khan

لائبریری میں شامل

01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 4

.
آں چست
از روز میری 
قسط نمبر4

"میرے پاس تمھارے گوش گزار کرنے کیلیئے وہ خبر ہے کہ جسے سنتے ہی تمھارا بخار اور تمھاری ٹینشن پل میں چھو منتر ہو جائے گی"۔   مشائم کے روم میں احد اسکے سامنے بیٹھا تھا۔
"کیسی خبر؟؟"۔    مشائم نے تجسس بھرے لہجے میں کہا۔
"ویل اسکے لیئے آپکو انتظار کرنا ہوگا' آنٹی انکل تم سے خود بات کریں گے"۔   احد نے مزے لیتے منہ پھیر لیا اور ہاتھوں کو مسلنے لگا تاکہ وہ جان سکے مشائم کی بے قراری کی حد کہاں تک ہے۔
"احد تم اچھے سے جانتے ہو مجھے کہ جب تک مجھے بات پتہ نا چلے مجھے درد قولنج ہوتا رہتا ہے' کیوں ترسا رہے ہو تمہی بتا دو"۔   مشائم نے تنگ طلبی سے کہا۔
"سمجھو کے تمھارے اس گھر میں کچھ ہی روز باقی ہیں"۔    فتح یاب کی مانند احد کے لبوں پہ مسکراہٹ رینگی۔
"مطلب؟؟"۔     مشائم کو جھٹکا لگا تھا۔
"مطلب یہ کہ تم مس سے مسز بن جاو گی' مسز احد سمعان"۔    
"سچ؟؟"۔   مشائم پہ خوشی کی کیفیت اس قدر طاری تھی کہ اسکے لب ہنسنے کا طریقہ تلاشنے لگے۔
"ہاں اور احد سمعان کی زندگی کے کچھ ہی دن باقی ہیں جو وہ اپنے طریقے  سے گزار سکتا ہے پھر اسکے بعد تو جی حضوری سے ہی کام چلانا ہے' ان فیکٹ پھر جی حضوری ہی میرا کام بن جائے گی"۔   احد نے بناوٹی افسوس سے کہا۔
"اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر جاو آزاد گھومو، پھرو۔ یہ قید کیوں؟"۔    مشائم نے ناراضگی سے منہ موڑا۔
"وہ اس لیئے کیونکہ محبت کے پنجرے میں قید پنچھی کو حقدار کا ساتھ چاہیئے پھر چاہے اسیر بن کر یا حریت میں"۔   مشائم کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے احد نے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کار کا دروازہ بند کرتے احد نے ڈیش بورڈ کھولا جہاں بکے سے جدا کیا گیا' مشائم کی جانب سے دیا گیا پھول دیدے پھاڑے جیسے احد کا ہی منتظر تھا۔
اپنی حالت پہ بدستور گلاب کی کلیاں تروتازہ تھیں اور پہلے کی طرح ان سے امڈتی خوشبو ماحول کو معطر کر رہی تھی۔
احد کا سر بوجھل سا ہونے لگا تھا۔
"یہ گلاب تو مجھے کل مشائم نے دیا تھا' اصولا اسے اب تک مرجھا جانا چاہیئے مگر یہ تو پہلے سے زیادہ کھلا کھلا لگ رہا ہے"۔    احد کو تعجب ہوا۔ "یاد آیا میں تو لائبریری جانے والا تھا اور پاپا نے بلوا لیا"۔   خیال آتے ہی احد نے گلاب سیٹ پہ پھینکا اور کار سٹارٹ کرتے مشائم کے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
لائبریری میں کافی مشقت اور تلاش کے بعد بالآخر اسے وہ کتاب مل گئی تھی جسکی اسے تلاش تھی' لائبریری سے بک اشو کراتے احد لائبریری سے نکل کر لائبریری پارکنگ ایریا کی طرف آیا۔ کار میں بیٹھتے اسنے بک دوسری سیٹ پہ رکھی اور کار سٹارٹ کرکے ریورس کرتے سڑک کی جانب دوڑائی۔
"احد"۔
سنسان سڑک پہ جنگلات کے مابین اسکی کار رواں تھی جب اسکی حس سامعہ میں اسی کے نام کی گونج ہوئی۔
احد نے یکلخت بریک پہ پیر رکھا۔
"ک۔ ک۔ کون ہے؟؟"۔    احد کے پسینے چھوٹے۔
"تم آو گے ۔۔۔ مجھے ملنے 
خبر ۔۔ یہ ۔۔ بھی ۔۔ تم ہی ۔۔ لانا"۔   
مانوس غیبی صدا نے احد کے کانوں کے گرد دوبارہ اودھم مچایا۔
"کون ہو تم؟ آخر کیا چاہتی ہو مجھ سے؟؟"۔    احد چلایا تھا' جواب میں ہولے سے ہنس دیا گیا جس پہ احد مزید سہم گیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"گھر میں سب میری شادی کو لے کر بہت خوش ہیں اگر انہیں ان سب چیزوں کے بارے میں بتایا تو خواہ مخواہ بدمذگی بنے گی' مجھے خود ہی کوئی حل نکالنا ہوگا"۔    اپنے روم میں چہل قدمی کے دوران وہ خود سے ہم کلام ہوا۔
"ماما کو بتا دوں؟ مشائم؟ بھائی؟ بھابی؟۔۔۔ پاپا کو اعتماد میں لے کر سب بتا دیتا ہوں ہاں' یہ ٹھیک رہے گا"۔   سوچ کی دنیا سے باہر آتے احد روم سے نکل کھڑا ہوا۔
"کیا سمعان صاحب تمھاری باتوں کا یقین کریں گے؟"۔   عقب سے نسوانی آواز ابھری۔
"کیوں؟ کیوں نہیں کریں گے؟ انہیں یقین کرنا ہی ہوگا اور ویسے بھی وہ جانتے ہیں کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا"۔   طیش میں آتے بغیر کسی وقفے کے اسنے پھولتی سانس سے بات مکمل کرتے سیڑھیوں پہ قدم رکھا۔
"لیکن تم انہیں بتاو گے کیا؟ تم نے کبھی مجھے دیکھا بھی تو نہیں"۔   
"میں نے تمھیں دیک۔۔۔"۔     احد سیڑھیوں کا سفر طے کر چکا تھا جب اسکے قدموں کے ساتھ زبان کو بریک لگی۔
"ک ۔ ک۔ کون ہو تم؟؟"۔    چار سو دھیرے سے گھومتے احد نے ہر لفظ پہ زور دیا۔
"تم نے اگر کسی کو بھی بتانے کی کاوش کی تو نتائج کے ذمہ دار تم خود ہوگے"۔   احد بے بس وہیں فرش پہ ڈھے گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سیاہ ٹریک سوٹ میں ملبوس وہ گھر کے باہر بنے مخصوص جم میں ایکسرسائز کر رہا تھا' اس سے تھوڑا فاصلے پہ الزبتھ صوفے پہ بیٹھی تھی۔ یک سر الزبتھ صوفے سے یوں اتری جیسے کسی نے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا ہو۔ احد جو مشین پہ دوڑ رہا تھا فی الفور رکا۔
"الزبتھ سٹ ڈاون"۔   احد کی آواز پہ الزبتھ نے اسے گھورا اور غراتے ہی وہاں سے دوڑ نکلی۔
"الزبتھ کم ہیئر"۔    احد بھی اسکے تعاقب میں دوڑا۔
بیرونی دروازہ بند ہونے کی صورت میں الزبتھ دروازے کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔
"الزبتھ کم ان سائیڈ"۔    پھولتی سانس میں احد اسکے قریب آ رکا۔
جونہی احد اسے اٹھانے کی غرض سے جھکا الزبتھ مزید عتاب میں آئی تھی' احد فورا سے سیدھا ہوا۔
الزبتھ کبھی احد کو اور دروازے کی سلاخوں کے پار دیکھتی۔ گارڈ بھی متحیر الزبتھ کی حرکتیں نوٹ کر رہا تھا۔
"صاحب آپ جائیں میں الزبتھ کو لے آوں گا"۔    گارڈ نے احد کو مخاطب کیا۔
احد کو معاملہ سمجھ آ گیا' سر کو جنبش دیتے احد حویلی کی اندرونی جانب بڑھنے لگا۔
الزبتھ بھی برق رفتاری سے احد کے پیچھے لپکی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"عامر صاحب سے بات کی ہے انکی فیملی کو کوئی اعتراض نہیں ' انکی جانب سے مثبت جواب موصول ہوا ہے۔ مجھے کل ایک ضروری کام ہے پرسو انشاءاللہ چلیں گے احد کی شادی کی تاریخ رکھنے تب تک اماں جی بھی آ جائیں گیں"۔    
سمعان صاحب اور انکی فیملی ڈنر کی غرض سے ڈائننگ ٹیبل پہ براجمان تھے' اسی دوران سمعان صاحب نے اپنے دائیں جانب بیٹھی راضیہ بیگم کو مخاطب کیا۔
دوسرے لقمے پہ احد کے ہاتھ رکے اور بھینی مسکراہٹ نے احد کے لبوں کا احاطہ کیا۔
"جی ٹھیک ہے"۔    راضیہ بیگم نے جوابا کہا۔
"مسکراہٹ سے ہی کام چلاو گے یا کھانا بھی کھاو گے؟"۔    مقابل بیٹھے احد کے چہرے کو بغور دیکھتے شہریار ہلکا سا احد کی طرف جھکا۔
"شہریار اب احد کے حلق سے نوالا کہاں اترے گا"۔    حرا نے شرارت سے کہا۔
"کیا بھابی آپ بھی"۔   احد نے شرمگیں نگاہ حرا کی طرف اٹھائی۔
"شہریار اور حرا میرے بچے کو کیوں تنگ کر رہے ہو؟"۔    احد کے برابر بیٹھیں راضیہ بیگم نے مداخلت کی۔
"احد کی شادی بھی ہونے والی ہے راضیہ بیگم اور آپ ابھی تک اسے بچہ ہی سمجھتی ہیں"۔    نیپکن سے منہ صاف کرتے سمعان صاحب ہنس دیئے۔
"بچہ چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نا ہو جائے ماں کیلیئے اسکا پیار کبھی کم نہیں ہوتا"۔   راضیہ بیگم نے احد کو پیار کرتے کہا۔
"ماما شاید آپ یہ بات بھول رہی ہیں کہ احد کے علاوہ بھی آپکا ایک اور بیٹا ہے"۔    شہریار نے بناوٹی ناراضگی سے کہا۔
"جیلس لوگ بھی یہیں پائے جاتے ہیں ماما"۔    احد نے شہریار کو مزید چڑاتے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گھبراہٹ میں' متلاشی نظروں سے پورے روم میں ادھر ادھر پھرتے' ایک دراز سے دوسرا دراز ٹٹولتے وہ بڑ بڑا رہا تھا۔
"کہاں چلی گئی یہیں تو رکھی تھی؟"۔    ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوتے وہ سوچ کے بھنور میں پھنسا تھا۔
"اس کتاب کو ڈھونڈ رہے ہو؟؟"۔    کانوں میں وہی نسوانی آواز گونجتے احد نے نظر اٹھائی جہاں آئینے سے اڑتی ہوئی کتاب اپنی طرف آتے دیکھ وہ سرعت سے پلٹا۔
"کیا ہوا احد؟ چونک کیوں گئے؟ تم اسی کتاب کو ڈھونڈ رہے ہو نا؟"۔    نرم آواز کے ساتھ وہ کتاب احد کی طرف ہولے سے بڑھ رہی تھی جیسے کوئی ہاتھوں میں لیئے احد کی طرف بڑھ رہا ہو۔
"ہ۔ ہ۔ ہاں مگر ت۔ ت۔ تم تمھارے پاس یہ کتاب ک۔ کیا کر رہی ہے؟"۔    احد کے پیروں تلے سے زمین کھسکی۔
"ڈرو نہیں ۔۔ لے لو"۔    کتاب ہوا میں چلتی اسکے سامنے آ رکی جس پہ احد بدک کر ذرا پیچھے کو ہوا۔
"احد"۔    بلا وساطت حرا کی آواز سنائی دی جو احد کے روم کی طرف آ رہی تھی۔
"ب۔ بھابی' اگر بھابی نے دیکھ لیا تو مصیبت ہو جائے گی"۔    احد منمنایا۔
ہمت کی کرچیاں سمیٹے احد فورا سے کتاب کی جانب لپکا اور اسے دبوچ لیا جس پہ غیبی قوت احد پہ ہنسنے لگی۔
"احد کیا ہوا؟ تم گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ اور اے سی کے باوجود بھی تمھیں یہ پسینہ کیوں آ رہا ہے؟"۔    حرا احد کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور احد کی غیر ہوتی حالت اسے مشکوک لگی۔
" ک۔ ک۔ کچھ نہیں بھابی آپ بتائیں' کوئی کام ہے؟"۔   کپکپاہٹ میں احد نے دائیں ہاتھ سے پسینہ صاف کیا۔
"کام تو نہیں ہے' ناشتہ تیار ہے تم آ جاو"۔   احد کو آگاہ کرتے وہ جونہی گھومنے لگی اس کی نظر احد کے بائیں ہاتھ پر گئی۔  "احد تم نے یہ بک کیوں پکڑی ہے؟ کیا تم بھی کتابیں پڑھتے ہو؟"۔   کتاب کا ٹائٹل "جنات کی تخلیق اور بدلہ" دیکھتے حرا مبہوت رہ گئی۔
"نہیں بھابی میں کتابیں نہیں پڑھتا یہ تو حمزہ کی کتاب ہے"۔    جلد بازی میں احد نے کتاب کو ڈریسنگ کی دراز میں رکھا۔
"اچھا' ٹھیک ہے تم آ جاو سب انتظار کر رہے ہیں"۔    بولتے ہی وہ روم سے نکل گئی تھی۔
احد نے سکھ کا سانس لیا۔
"تم نے اس سے جھوٹ کیوں بولا؟"۔   غیبی آواز نے دوبارہ سے سر اٹھایا۔
"ت۔ ت۔ تم سے مطلب؟؟"۔   احد بھی عتاب میں روم سے نکل گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆

   0
0 تبصرے